وہ بہت مصروف صُبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک شخص اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نِکلوانے کيلئے آيا۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے۔ اُس کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اس کے زَخم کا مُعائنہ کيا تو زَخم مَندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اُس کے ٹانکے نِکال کر پٹی کر دی۔
ميں نے اسی اثناء ميں ان سے پوچھا کہ “کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے ؟؟"
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی والدہ کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اُس پر ميں نے ان کی والدہ کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی والدہ الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ “اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی والدہ ناراض ہو گی ؟”
اُس نے جواب ديا کہ “وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے”
ميں نے حيران ہو کر پوچھا “اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی والدہ کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں؟”
اس نے مسکرا کر کہا “درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے”
يہ سُن کر ميں نے بڑی مُشکل سے اپنے آنسو روکے گو ميرا کليجہ منہ کو آ رہا تھا۔ ميں نے سوچا “يہ ہے محبت جو ہر انسان کو چاہيئے"
اقتباس
No comments:
Post a Comment