اعتکاف - فضیلت واہمیت اور احکام

اعتکاف - فضیلت واہمیت اور احکام

(Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti, Karachi)

”اعتکاف“لغوی اعتبارسے”ٹھہرنے “کوکہتے ہیں۔جبکہ اصطلاحِ شریعت(Tarm of Islamic)میں اعتکاف کامعنی ہے:مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا،جماع کوبالکل ترک کرنا اور اللہ تعالیٰ سے تقرب اوراجرو ثواب کی نیت کرنا اورجب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرع اًاعتکاف نہیں ہوگ الیکن مسجدمیں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔ عورتوں کیلئے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھرمیں نماز کی مخصوص جگہ کویا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ہرمسجد میں اعتکاف ہو سکتاہے،البتہ بعض علماءنے اعتکاف کیلئے ”جامع مسجد“کی شرط لگائی ہے۔(احکام القرآن:جلد1صفحہ242)

اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف!اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی بجالانے کاایک ایسامنفرد طریقہ ہے جس میںمسلمان دنیا سے بالکل لاتعلق اورالگ تھلگ ہوکراللہ تعالیٰ کے گھرمیںفقط اس کی ذات میںمتوجہ اورمستغرق ہوجاتاہے۔ اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی یوںبیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: ”اورہم نے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہماالسلام کوتاکیدکی کہ میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے،اعتکاف کرنے والوں کیلئے اوررکوع کرنے والوں کیلئے خوب صاف ستھرا رکھیں“۔(سورة البقرہ: آیت نمبر125)

یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کعبة اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میںاللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے اعتکاف کیاجاتا تھا۔

اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضورسیدالانبیاءمحبوبِ کبرےاحضرت محمدمصطفیﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیاہے اوراس کی بہت زیادہ تاکیدفرمائی ہے۔چنانچہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ بے شک حضورنبی کریمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاںت ک کہ آپﷺخالق حقیقی سے جاملے۔پھرآپﷺکی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں“۔
(صحیح بخاری،صحیح مسلم)

دوحج اور دوعمروں کا ثواب
Oحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایاکہ:”جس شخص نے رمضان المبارک میںآخری دس دنوں کا اعتکاف کیاتو گویاکہ اس نے دوحج اوردوعمرے ادا کئے ہوں“۔(شعب الایمان)

Oحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف(اعتکاف کرنے والے)کے بارے میںفرمایاکہ:”وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جویہ تمام نیکیاں کرتاہو“۔(سنن ابن ماجہ،مشکوٰة )

اس حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اورگناہوں....مثلاًغیبت، چغلی، بری بات کرنے،سننے اوردیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتاہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا مثلاً قبرستان کی زیارت، نمازِجنازہ کی ادائیگی،بیمارکی عیادت ومزاج پرسی اورماںباپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ لیکن اگرچہ وہ ان نیکیوں کوانجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ اسے یہ نیکیاں کئے بغیرہی ان تمام کا اجرو ثواب عطافرمائے گا،کیونکہ معتکف اللہ کے پیارے رسول ﷺکی سنت مبارکہ ادا کررہاہے جودرحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت وفرمانبرداری ہے۔

اعتکاف کی غرض وغایت،شب قدرکی تلاش:

Oحضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا،پھردرمیانی عشرے میںبھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا پھرخیمہ سے سراقدس نکال کرارشادفرمایاکہ: ”میںنے پہلے عشرے میں”شب قدر“کی تلاش میں اعتکاف کیاتھا پھر میںنے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیاپھرمیرے پاس ایک فرشتہ آیااورمجھ سے کہاکہ شب قدرآخری عشرے میں ہے،پس جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرتاتھاتو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہئے “۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم )

مندرجہ بالاحدیث مبارک سے معلوم ہواکہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت”شب ِقدر“کی تلاش وجستجو ہے اوردرحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کوپانے کیلئے بہت مناسب ہے،کیونکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویاہوا بھی ہوتب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتاہے ۔نیز اعتکاف میں چونکہ عبادت وریاضت اورذکر و فکرکے علاوہ اورکوئی کام نہیں رہے گا،لہٰذا شب قدر کے قدر دانوں کیلئے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺکا معمول بھی چونکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کارہاہے،اس لئے علمائِ کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔

اعتکاف کی روح اورحقیقت
اعتکاف کی اصل روح اورحقیقت یہ ہے کہ آپ کچھ مدت کیلئے دنیا کے ہرکام ومشغلہ اورکاروبارِ حیات سے کٹ کراپنے آپ کوصرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کیلئے وقف کردیں۔اہل وعیال اورگھربارچھوڑکراللہ کے گھرمیں گوشہ نشین ہو جائیں اورساراوقت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور اس کے ذکرو فکرمیں گزاریں۔ اعتکاف کاحاصل بھی یہ ہے کہ پوری زندگی ایسے سانچے میں ڈھل جائے کہ اللہ تعالیٰ کواوراس کی بندگی کودنیاکی ہرچیز پرفوقیت اورترجیح حاصل ہو۔

اعتکاف کاپہلاحق یہ ہے کہ رمضان المبارک کے پورے آخری عشرے کااعتکاف کیاجائے۔سب سے افضل مسجدمیں اعتکاف کرے، مثلاً مسجدحرام،مسجد نبوی ﷺاورجامع مسجدوغیرہ۔ قرآن وحدیث کی تلاوت اورفقہ اسلامی وتاریخ اسلام کی کتابوں کامطالعہ کرے۔کثرت سے نوافل ادا کرے۔ اپنے تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں،ظاہروپوشیدہ گناہوںپرتوبہ واستغفارکرے اور زندگی بھرکی قضاءنمازیں پڑھتارہے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرکے اپنے ربِّ کریم کوراضی کرنے کی کوشش کرتارہے۔

معتکف اگربہ نیت عبادت خاموش رہے یعنی خاموش رہنے کو ثواب سمجھے تویہ مکروہ ہے اوراگرچپ رہناثواب نہ سمجھے توکوئی حرج نہیں ہے اورفضول وبری باتوںسے پرہیزکرے تویہ مکروہ نہیںبلکہ اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔

جیساکہ ایک حدیث پاک میںحضوراکرمﷺکاارشاد ہے کہ: ”مسجد میںدنیاوی باتیں کرنانیکیوں کواس طرح ختم کردیتاہے جس طرح آگ لکڑیوں کوکھا جاتی ہے“۔(الحدیث)

معتکف کوچاہئے کہ وہ مدتِ اعتکاف کوآرام وسکون کاایک موقع سمجھ کر ضائع نہ کرے کہ دن رات صرف سوتاہی رہے یایوں ہی مسجدمیںٹہلتارہے بلکہ سونے اورآرام کرنے میں کم سے کم وقت ضائع کرے ....اور اعتکاف کے ایام کواپنی تربیت اورآئندہ زندگی کے سنہری اورخاص دن سمجھے.... اور عبادت وریاضت میںسخت محنت کرے....اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ نمازیں خصوصاًاپنی قضاءنمازیںپڑھتارہے ....قرآن وحدیث کی تلاوت کرے.... درودوسلام کاوردکرتارہے ....اورفقہ و اسلامی کتابوں کامطالعہ کرتارہے۔

اعتکاف کرنے والادنیاکے مشاغل سے الگ ہوکرخودکو عبادت الٰہی کے سپردکردےتاہے اوراعتکاف کے ایام میں معتکف بندہ فرشتوں کے مشابہ ہوجاتاہے، جواللہ تعالیٰ کی بالکل معصیت و نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت اللہ کے احکام پرعمل کرتے ہیں اوردن رات تسبیح وتحمیداورتہلیل وتمجید میںمشغول رہتے ہیں۔نمازی! نمازپڑھ کرچلے جاتے ہیںلیکن معتکف اللہ تعالیٰ کے گھرکو نہیںچھوڑتااوروہیںوھرنا مارکربیٹھارہتاہے۔ پس اس کیلئے اللہ جل شانہ کی رحمتیں،نعمتیں،برکتیں،سعادتیں اورانعامات واحسانات بھی زیادہ متوقع ہیں۔(تفسیرتبیان القرآن:جلد1،صفحہ737)

اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اوّل.... اعتکاف ِ واجب
دوم.... اعتکاف ِ سنت
سوم.... اعتکافِ مستحب

اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اتنے دن کااعتکاف کروں گااوراس کاوہ کام ہوگیا تویہ اعتکاف کرنا واجب ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائیگی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کیلئے روزہ بھی شرط ہے،بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔

اعتکاف سنت
اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیاجاتاہے یعنی بیسویں رمضان کوسورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف)میں داخل ہو جائے اورتیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے کے بعد یا انتیسویں(29ویں)رمضان کو عید الفطر کاچاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگرکسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے،مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تواعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیرمسجد میں رہے گا،اعتکاف کاثواب پائے گا۔یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتاہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے،جب مسجد سے باہر نکلے گاتواعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔

مفسداتِ اعتکاف
Oاُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ.... اعتکاف کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ وہ(حالت ِاعتکاف میں)مریض کی عیادت کونہ جائے اورنہ ہی نمازِجنازہ میں شریک ہواورنہ ہی عورت کے ساتھ مباشرت وجماع کرے اورنہ کسی کام کیلئے نکلے سوائے ضروری (طبعی اورشرعی ) حاجتوں کے اور اعتکاف روزہ کے ساتھ ہی ہوتاہے اوراعتکاف ایسی مسجدمیں ہوتاہے،جہاںنماز باجماعت ہوتی ہو“۔(سنن ابی داﺅد،مشکوٰة المصابیح)

کسی شرعی عذرکے بغیرمسجدسے باہرنکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبرازکیلئے اورنمازِ جمعہ کیلئے جاناشرعی عذرہے....وضوکیلئے اور غسل جنابت کیلئے جانابھی عذرشرعی ہے....کھانے،پینے اورسونے کیلئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں ہے اوراگرکوئی مریض کی عیادت کیلئے یانمازِ جنازہ پڑھنے کیلئے مسجدسے باہرگیاتواس کااعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف کی قضا ء
فقیہ ا لامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ(متوفی1252ھ) لکھتے ہیں کہ: ”رمضان المبارک کے آخری عشرے کااعتکاف ہرچندکہ نفل(سنت موکدہ) ہے،لیکن شروع کرنے سے لازم ہو جاتاہے۔اگرکسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردےاتوامام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضاءلازم ہے،جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اورامام محمدبن حسن شیبانی رحمة اللہ علیہماکے نزدیک اس پرصرف اسی ایک دن کی قضاءلازم ہے۔(ردالمحتار:131/2)

اعتکاف کی قضاءصرف قصداًوجان بوجھ کرہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگرکسی عذرکی وجہ سے اعتکاف چھوڑ دیا مثلا ًعورت کوحیض یانفاس آگےا یاکسی پر جنون وبے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہوتواس پربھی قضاءلازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں توتمام کی قضاکی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضاکرے،اوراگرکل دن فوت ہوں توپھرکل کی قضاءلازم ہے۔

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں دس دن بغیر غسل کے گزارناسخت تنگی کا باعث ہے۔ساراجسم پسینہ سے شرابورہوجاتا ہے اورگرمی وبدبوسے براحال ہوجاتاہے توکیا اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ بدن کوٹھنڈک پہنچانے کیلئے غسل کرلیا جائے،توعرض یہ ہے کہ جس طرح روزے میں ایک گھونٹ پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے،اسی طرح اعتکاف میں ایک باربھی بغیرحاجت انسانی اورضرورتِ شرعیہ(مثلاًنمازِ جمعہ پڑھنایااحتلام کے بعدغسل کرنا)کے نکلنے سے اعتکاف باطل ہو جاتاہے۔

دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوسنت اعتکاف اوراس کی حقیقت اورروح پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہمیں اس کی بے حساب رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب فرمائے۔آمین

No comments:

Post a Comment