ستارہ 17 رمضان یوم جنگ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله وبـــركـــاتـــه .

ستارہ 17 رمضان یوم جنگ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد

فرشتوں کی امداد،

حدیث نمبر: 1159
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا، تو پھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا“ (الانفال: 9) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابوزمیل (راوی حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی وہ کہتا تھا کہ بڑھ اے حیزوم (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا، جیسا کوئی کوڑا مارتا ہے اور وہ (کوڑے کی وجہ سے) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابوزمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجئیے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کیجئے، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئیے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے ”امام“ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گاور نہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے“ (الانفال: 69..67)۔

/٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
صحیح مسلم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تکلیف پہنچی۔

حدیث نمبر: 1166
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنا نہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقام) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرائیل تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا سن لیا ہے۔ اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کروں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابوقبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)؟۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے (سبحان اللہ کیا شفقت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ ان کی تکلیف گوارا کرتے)۔

صحیح مسلم

حدیث نمبر: 1167
سیدنا جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہے تو مگر ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بےحقیقت ہے)۔

صحیح مسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے احد کے دن جبرائیل اور میکائیل علیہم السلام کا لڑنا۔

حدیث نمبر: 1164
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے) اس سے پہلے اور اس کے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)۔
صحیح مسلم

جنگ بدر کے مردار کافروں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو جبکہ وہ مردہ تھے۔

حدیث نمبر: 1160
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ (یعنی وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سن رہے تھے)۔

صحیح مسلم

Surah: 3 : al-Imran, Verse: 121.123
اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعده بٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ سننے جاننے واﻻ ہے
جب تمہاری دو جماعتیں پست ہمتی کا اراده کر چکی تھیں، اللہ تعالیٰ انکا ولی اور مددگار ہے۔ اور اسی کی پاک ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے
جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو

Like Comments And share
More post ka liya like page
@Noorefatima111

Subscribe YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCN6rFMze5Ou5hRBYF2jpPpA

No comments:

Post a Comment