بیس 20 رمضان یوم فتح مکہ کا بارے میں احادیث

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله وبـــركـــاتـــه

🌼🌼بیس 20 رمضان یوم فتح مکہ🌼🌼

٠٢٠۔ فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ ۔۔۔
فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ والوں پر احسان۔

حدیث نمبر: 1182
سیدنا عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہمیں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں، تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں، وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ٹکرے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا ابوہریرہ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس انصاری کے علاوہ کوئی نہ آئے اور شیبان کے علاوہ دوسرے راوی نے یہ اضافہ کیا کہ انصار کو میرے لئے پکارو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کئے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دیدیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا کہ تم مجھ سے صفا پر ملو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی محبت آ گئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت آ گئی؟ انہوں نے کہا کہ بیشک یہ تو ہم نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔ نصاریٰ نے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لئے) ابوسفیان کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو چوما، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا“ جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔ (الاسراء : 81)۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
/صحیح مسلم

٠٤١۔ مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہے

اور ابوشریح رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔

حدیث نمبر: 1834
ہم  ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطاء کی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اذخر (ایک گھاس) کی اجازت تو دیجئیے کیونکہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔

٢٧۔ کتاب العمرہ/
صحیح بخاری )

٠٣٤۔ جب رمضان میں کچھ روزے رکھ کر کوئی سفر کرے

حدیث نمبر: 1944
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے۔

حدیث نمبر: 1945
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمن بن یزید بن جابر نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن عبیداللہ نے بیان کیا، اور ان سے ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔

٢٩۔ کتاب الصیام
/صحیح بخاری

٠٣٩۔ اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں/٢٧۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں۔

حدیث نمبر: 1832
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کر کے اور نہ کسی جرم کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔

کتاب العمرہ/
صحیح بخاری

٠٢٢۔ فتح کے بعد کوئی قریشی باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔

حدیث نمبر: 1184
سیدنا عبداللہ بن مطیع اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آج کے بعد کوئی قریشی آدمی قیامت تک باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
صحیح مسلم )

٠٢٣۔ فتح کے بعد اسلام، جہاد اور خیر (نیکی) پر بیعت۔

حدیث نمبر: 1185
سیدنا مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابومعید کو فتح (مکہ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس سے ہجرت پر بیعت لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت مہاجرین کے ساتھ ہو چکی۔ میں نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام، جہاد اور نیکی پر۔ ابوعثمان نے کہا کہ میں ابومعید سے ملا اور ان سے مجاشع کا کہنا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
/صحیح مسلم )

Like Comments And share
More post ka liya like page
@Noorefatima111

Subscribe YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCN6rFMze5Ou5hRBYF2jpPpA

No comments:

Post a Comment