New Nokia

27 Ramzan Aazdi e Pakistan Day

ستائیس 27 رمضان شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء آزادی پاکستان

مولانا مفتی محمد شفیع

پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔
ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان، قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کا پتہ چلتا ہے۔
یہ شب عبادت، پاکستان کی سعادت پر اور یوم جمعۃ الوداع اس مملکت خداداد کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ رمضان اور قرآن استحکام پاکستان کے ضامن اور آزادی کے محافظ ہیں۔ عید آزادی ہمارا تمدنی، تہذیبی تہوار ہے۔ اس کو اسلامی ہجری، قمری کیلنڈر کے مطابق منایا جانا چاہیے۔ تحریک پاکستان ایک نظریاتی، ملی تحریک تھی جس کا مقصد ہندی، فرنگی تمدنی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔
27 رمضان آزادی و تشکر کا یوم سعید ہے جس کو بھول جانا ناسپاسی ہے۔
عیسوی کیلنڈر سے نجات اور اسلامی ہجری کیلنڈر کا اختیار کرنا آزادی کا روحانی اور فکری ایمانی تقاضا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کا اپنا سیاست، معیشت و معاشرت عدل و احسان عفت و طہارت او تقویم کا نظام ہے۔ جو ہجری قمری ہے اور دنیائے عرب میں رائج ہے۔ اسلامی عبادات و تاریخ کی روایات بھی ہجری قمری کیلنڈر کے حوالے سے ریکارڈ پر ہیں۔ دو قومی نظریہ درحقیقت اسلام کے عقائد و اعمال کا نام ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان اس نظریاتی اساس کے پاسدار تھے ۔
وہ قرآن حکیم ہی کو پاکستان کا آئین و قانون تصور کرتے تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ صرف اسلامی نظام کے حوالے سے ہی مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کے علمبردار تھے۔ بانیان پاکستان کی فکر سے دوری آزادی کی برکات سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے۔
قمری اعتبار سے اس دفعہ کی عید آزادی جو پاکستان کی 70 ویں سالگرہ ہے ہمارے لئے یوم احتساب کا درجہ رکھتی ہے کہ ہم اپنی آزادی کی حفاظت کے اہل بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر ہم یوم آزادی کی تاریخ کو اسلامی حوالے سے تسلیم کرانے میں اس حد تک معذور ہیں تو آزادی کے تحفظ کی ضمانت کیا ہے؟
14 اگست یوم آزادی پر مقتدر حضرات کا اعتراض یہ ہے کہ اگر 27 رمضان کو یوم آزادی منایا جائے تو رمضان کی وجہ سے کئی تقریباتی عمل پذیر نہیں ہو سکتے۔ میرا ا اتنا کہنا ہے کہ 27 رمضان کو یوم آزادی قرار دے دیں، پوری قوم اس رات لیلتہ القدر، ختم قرآن کی وجہ سے مساجد میں سربسجود ہوتی ہے، اس سے بہتر تشکر کا موقع کونسا ہو سکتا ہے۔ صرف صدر وزیراعظم کے پیغام مبارکبادی ذرائع ابلاغ پر قوم کو پہنچائے جائیں اور فوج مارچ پاسٹ کرے۔ جنگ بدر میں لشکر اسلام نے کفار سے جنگ جیتی ہے تو پاکستان کی اسلامی فوج حالت روزہ میں تقریباتی مظاہرے سے ہرگز نہ گھبرائے نہ اکتائے گی بلکہ وہ تو ہر وقت ہر موسم میں دفاع وطن کیلئے تیار ہے۔
ہمارے رسول پاکؐ نے فرمایا جو کسی غیر قوم سے مشابہت رکھتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔پاکستان اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب لیلتہ القدر کو عطا فرمایا۔ قرآن و رمضان سے پاکستان کی نسبت محض اتفاق نہیں بلکہ قدرت کاملہ کی عظیم حکمت عملی ہے جس کے ذریعے اہل پاکستان سے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا کام لینے کا موقع فراہم کرنا مقصود ہے۔ پاکستان دنیائے اسلام میں صرف ایک ملک ہے جو نظریاتی حوالے سے وجود میں آیا، اس کا نام ’’پاکستان‘‘ خود اس پر دلیل ہے۔ 14 اگست کو تقریبات پر اٹھنے والے کروڑو روپے کے اخراجات سے نجات اور بغیر کسی خرچ کے لیلتہ القدر کی تقریب دعا و تشکر اسلامی اقدار کی برکات میں سے ہے جس سے استفادہ کی یہ فقیر ارباب بست و کشاد اور قوم سے مخلصانہ اپیل کرتا ہے کہ یوم آزادی پاکستان اور تاریخ قیام پاکستان 27 رمضان المبارک قرار دی جائے تاکہ قرآن، رمضان، مسجد کے رشتے استوار ہوں،
آپ کو اس تحریر سے پتا چل ہی گیا ہوگا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ قرآن اور مصطفی کا نظام نافظ ہو۔۔۔
آو ہم مسلمان وعدہ کریں ہم پاکستان کو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان بنائیں گے۔۔
یہا نظام مصطفی نافظ کروائیں گے
آج ہمارے حکمران ووٹ سے پہلے صرف وعدہ کر کے پاکستان کا تاریخی اندھیروں کے رستوں پر چھوڑ جاتے ہیں
آج تک لاکھوں کشمیری شہید ہوگئے میری ملک میں کتنی حکومتیں آئیں پھر کسی نے کھول کر کشمیر کا ساتھ نہیں دیا نس سارے حکمرانوں کا یہی بیان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہیے ۔۔
آپ خو سوچیں کیا ہماری حکومت اسلامی کیا یہ حکومت قائداعظم اور اقبال کے بتائے ہوئےرستے پر چلتی ہے ؟؟

قومی وقار و نظریات کو استحکام ملے۔ آمین! شب قدر قدردانِ حقیقت آبروئے صحافت محافظ نظریہ پاکستان محترم مجید نظامی کے وصال حق کی امین ہے، ان مقبول ساعتوں میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، مصور پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال، حمید نظامی، مجید نظامی مرحوم کے درجات بلند اور ادارہ نوائے وقت کو پاکستان نظریۂ پاکستان کا پاسبان ہونے کا اعزاز منظور فرمائے۔
اللہ پاکستان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ کا نظام نافظ فرمائے۔۔۔

آمین یارب العلمین

#لبیک_یارسول_اللہ
#Labbaik_Ya_Rasool_Allah
#Yoom_E_Aazadi

Like Comments And share
More post ka liya like page
https://www.facebook.com/NooreFatima111/

Subscribe YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCN6rFMze5Ou5hRBYF2jpPpA

اکیس 21 رمضان یوم شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله وبـــركـــاتـــه .
اکیس 21 رمضان یوم شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ

٠٠٣۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔

حدیث نمبر: 1639
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔

حدیث نمبر: 1640
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

حدیث نمبر: 1641
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔

٥٩۔ دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
صحیح مسلم

Like Comments And share
More post ka liya like page
@Noorefatima111

Subscribe YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCN6rFMze5Ou5hRBYF2jpPpA

بیس 20 رمضان یوم فتح مکہ کا بارے میں احادیث

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله وبـــركـــاتـــه

🌼🌼بیس 20 رمضان یوم فتح مکہ🌼🌼

٠٢٠۔ فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ ۔۔۔
فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ والوں پر احسان۔

حدیث نمبر: 1182
سیدنا عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہمیں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں، تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں، وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ٹکرے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا ابوہریرہ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس انصاری کے علاوہ کوئی نہ آئے اور شیبان کے علاوہ دوسرے راوی نے یہ اضافہ کیا کہ انصار کو میرے لئے پکارو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کئے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دیدیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا کہ تم مجھ سے صفا پر ملو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی محبت آ گئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت آ گئی؟ انہوں نے کہا کہ بیشک یہ تو ہم نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔ نصاریٰ نے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لئے) ابوسفیان کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو چوما، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا“ جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔ (الاسراء : 81)۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
/صحیح مسلم

٠٤١۔ مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہے

اور ابوشریح رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔

حدیث نمبر: 1834
ہم  ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطاء کی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اذخر (ایک گھاس) کی اجازت تو دیجئیے کیونکہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔

٢٧۔ کتاب العمرہ/
صحیح بخاری )

٠٣٤۔ جب رمضان میں کچھ روزے رکھ کر کوئی سفر کرے

حدیث نمبر: 1944
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے۔

حدیث نمبر: 1945
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمن بن یزید بن جابر نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن عبیداللہ نے بیان کیا، اور ان سے ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔

٢٩۔ کتاب الصیام
/صحیح بخاری

٠٣٩۔ اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں/٢٧۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں۔

حدیث نمبر: 1832
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کر کے اور نہ کسی جرم کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔

کتاب العمرہ/
صحیح بخاری

٠٢٢۔ فتح کے بعد کوئی قریشی باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔

حدیث نمبر: 1184
سیدنا عبداللہ بن مطیع اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آج کے بعد کوئی قریشی آدمی قیامت تک باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
صحیح مسلم )

٠٢٣۔ فتح کے بعد اسلام، جہاد اور خیر (نیکی) پر بیعت۔

حدیث نمبر: 1185
سیدنا مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابومعید کو فتح (مکہ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس سے ہجرت پر بیعت لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت مہاجرین کے ساتھ ہو چکی۔ میں نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام، جہاد اور نیکی پر۔ ابوعثمان نے کہا کہ میں ابومعید سے ملا اور ان سے مجاشع کا کہنا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔

٤٠۔ ہجرت اور غزوات بیان میں
/صحیح مسلم )

Like Comments And share
More post ka liya like page
@Noorefatima111

Subscribe YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCN6rFMze5Ou5hRBYF2jpPpA

پندرہ رمضان ولادت نواسہ ہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله
🌼15 Ramzan Wiladat e Hassan R.A🌼
پندرہ رمضان ولادت نواسہ ہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ

٠٠٩۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔

حدیث نمبر: 1652
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سفید خچر کو کھینچا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سوار تھے، یہاں تک کہ ان کو حجرہ نبوی تک لے گیا۔ یہ ایک صاحبزادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اور یہ ایک پیچھے تھے۔

حدیث نمبر: 1653
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے؟ بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

حدیث نمبر: 1656
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو!“ (الاحزاب: 33)۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں جیسا کہ شیعہ کا نظریہ ہے بلکہ اصل میں اہل بیت تو ازواج ہی ہیں جو کہ آیت کا سیاق بھی بتاتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کر لیا ہے)۔

حدیث نمبر: 1657
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا کہ اے زید! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی۔ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا۔ ہم سے بھی کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری عمر بہت بڑی ہو گئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھتا تھا بھول گیا ہوں، میں جو بات بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لئے مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔

٥٩۔ دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
صحیح مسلم
Like Comments And share
More post ka liya like page
@Noorefatima111